اعلی حضرت اور تعظیم سادات


اعلی حضرت - علیہ الرحمۃ  و الرضوان- کے نزدیک ہر وہ چیز قابل احترام اور لائق تعظیم تھی جس کو سرور کونین - صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم- سے کچھ بھی نسبت ہو،یہاں تک کہ وہ راہیں جن سے پیارے آقا - صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم - کا گذر ہوا،انکے بارے میں فرماتے ہیں ...

گذرے جس راہ سے وہ سید والا ہو کر

رہ گئی ساری زمین عنبر سارا ہو کر


اور وہ ذرے جو پیارے آقا - صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم - کے قدم مبارک سے مس ہو جائیں، اعلی حضرت کے نزدیک ان کا کیا مقام ہے، سنیئے...


ذرے جھڑ کر تیری پیزاروں کے

تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے


تو پھر سادات کرام جو نبی پاک - صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم - کے جز ہیں، آپکی آل و اولاد ہیں،وہ اعلی حضرت - علیہ الرحمۃ و الرضوان - کے نزدیک کس قدر لائق تعظیم اور قابل احترام ہوں گے۔ فرماتے ہیں..


تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور، تیرا سب گھرانا نور کا


اعلی حضرت - علیہ الرحمۃ و الرضوان - سے سوال ہوا کہ سید کے لڑکے کو اس کا استاد تادیباً مار سکتا ہے یا نہیں ؟ ارشاد فرمایا : قاضی جو حدود الہیہ قائم کرنے پر مجبور ہے،اس کے سامنے کسی سید پر حد ثابت ہوئی تو باوجود یہ کہ اس پر حد لگانا فرض ہے اور وہ حد لگاۓ گا لیکن اس کو حکم ہے کہ سزا دینے کی نیت نہ کرے بلکہ دل میں یہ نیت رکھے کہ شہزادے کے پیر میں کیچڑ لگ گئی ہے، اسے صاف کر رہا ہوں، تو قاضی جس پر سزا دینا فرض ہے، اس کو تو یہ حکم ہے ع

تا به معلم چہ رسد   پھر معلم کو کیسے حق پہنچتا ہے!

( ملفوظات اعلی حضرت، ح ۳،ص۳٩٦)

اور ایسا نہیں کہ اعلی حضرت - علیہ الرحمۃ و الرضوان - سادات کرام کا صرف زبانی ادب کرتے ہوں بلکہ آپ واقعی سادات کرام کی اتنی تعظیم و توقیر کرتے تھے کہ آج کے دور میں اسکی نظیر ملنا مشکل ہے، ذیل کے چند واقعات سے آپ اس کو باخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

۱ : جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے۔ ایک کم عمر صاحبزادے خانہ داری کے کاموں میں امداد کے لیے کاشانہ اقدس میں ملازم ہوئے۔ بعد کو معلوم ہوا کہ سید زادے ہیں۔ لہذا گھر والوں کو تاکید فرمادی کہ صاحبزادے صاحب سے خبردار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں،کھانا وغیرہ اور جس چیز کی ضرورت ہو، حاضر کی جاۓ، جس تنخواہ کا وعدہ ہے، وہ بطور نذرانہ پیش ہوتی رہے۔ ( حیات اعلی حضرت، ص ١١٣ )

۲ : انہیں کا بیان ہے کہ بعد نماز جمعہ حضور پھاٹک میں تشریف فرما ہیں، اور حاضرین کا مجمع ہے کہ شیخ امام علی صاحب قادری رضوی مالکِ ہوٹل آئس کریم بمبئی کے برادر خورد مولوی نور محمد صاحب کی آواز جو بسلسلہ تعلیم مقیم آستانہ تھے،باہر سے قناعت علی، قناعت علی پکارنے کی گوش گزار ہوئی، انہیں فوراً طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا : سید صاحب کو اس طرح پکارتے ہو؟ کبھی آپ نے مجھے نام لیتے ہوئے سنا؟مولوی نور محمد صاحب نے ندامت سے نظر نیچی کرلی۔ فرمایا : تشریف لے جائیے اور آئندہ سے اس کا لحاظ رکھنا۔( أیضاً،ص١١٥ ) 

۳ : ایک مرتبہ آپ کی سواری کے لیے پالکی آپ کے دروازے پر لگادی گئی، باہر پروانوں کی بھیڑ جمع تھی،بڑی مشکل سے سواری تک پہنچنے کا موقع ملا،پالکی اٹھائی گئی،ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ امام اہل سنت نے آواز دی " پالکی روک دو " حکم کے مطابق پالکی رکھ دی گئی،کہاروں کو اپنے قریب بلایا اور بھرائی ہوئی آواز میں دریافت فرمایا " آپ لوگوں میں کوئی آل رسول تو نہیں؟" کافی دیر خاموش رہنے کے بعد نظر جھکائے ہوئے دبی زبان میں ان میں سے ایک نے کہا " مزدور سے کام لیا جاتا ہے، ذات پات نہیں پوچھا جاتا" امام اہل سنت نے فرمایا : قیامت کے دن اگر کہیں سرکار نے پوچھ لیا کہ " احمد رضا، کیا میرے فرزندوں کا دوش نازنیں اسی لیے تھا کہ وہ تیری سواری کا بوجھ اٹھائیں؟ تو میں کیا جواب دوں گا۔

اور اسکے بعد سید زادے کی منت و سماجت کرتے رہے یہاں تک کہ کئی بار زبان سے معاف کر دینے کا اقرار کرا لینے کے بعد اس وقت تک آپ کو سکون نہیں ملا جب تک کہ سید زادے کو پالکی میں بٹھا کر اپنے کاندھوں پر اٹھا نہ لیا۔

آہ ! وہ منظر کتنا رقت انگیز اور دل گداز تھا جب اہل سنت کا جلیل القدر امام، کہاروں کی قطار سے لگ کر اپنے علم و فضل، جبہ و دستار اور اپنی عالمگیر شہرت کا سارا اعزاز خوشنودی حبیب کے لیے ایک گمنام مزدور کے قدموں پر نثار کر رہا تھا۔ ( ملخص از " خطبات محرم" ص ٢٨٧،٢٨٨،٢٨٩ )


مذکورہ بالا سطور کے مطالعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آل رسول کے ساتھ جس کی عقیدت و اخلاص کا یہ عالم ہو تو رسول مقبول - صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم - کے ساتھ انکی وارفتگی کا عالم کیا ہوگا۔اسی لیے فرماتے ہیں..

لحد میں عشقِ رخ شہ کا داغ لے کے چلے

اندھری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے


اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بھی سادات کرام سے محبت اور انکی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

محمد ذیشان مصباحی مراداباد

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

توسل شریعت کے میزان میں

عنوان : موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کی از سر نو تعمیروترقی کے لۓ جامع منصوبہ بندی: ضرورت اور پلان۔

ہدیئہ تشکر