عنوان : موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کی از سر نو تعمیروترقی کے لۓ جامع منصوبہ بندی: ضرورت اور پلان۔
نحمدہ و نصلی ونسلم علی حبیبہ الکریم۔اما بعد:
اللہ رب العزت نے امت کے سب سے بڑے محسن عرب کے دریدہ پیرہن اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اپنا پسندیدہ دین مذہب اسلام دے کر کے اس فرش گیتی پر مبعوث فرمایا۔ جس نے انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشن صبح کی طرف گامزن کیا، کیوں کہ مذہب اسلام نے انسان کی ہر شعبہ میں رہنمائی فرمائی، عبادت و ریاضت سے لے کر دنیا کی قیادت و سربراہی، حکومت و سیادت اور قوموں کی تعمیر و ترقی کے طریقے غرض کہ حیات و کائنات کا کون سا مسلہ اور کون سی فکر ہے جس سے مذہب اسلام کا دامن تہی اور خالی ہو یا مذہب کے آفاق میں اس کے حل کی روشنی نہ ہو؟ مذہب اسلام میں جو جامعیت، تعمق، تفکر اور جمالیاتی رومز و نکات ہیں وہ کہیں اور نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ لیل و نہار کی گردش، شمس و قمر کی ضیا بازی، نسیم و نکہت کی عطر بیزی، لال و گل کی جمال آرائی سب اس سچے مذہب کے سامنے پھینکی اور ماند پڑ
اور مسلمانوں نے مذہب اسلام کے پاکیزہ نظام پر عمل کرنے کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے تین بڑے براعظموں پر حکومت وسیادت اور دنیا کی قیادت و سربراہی کا شرف حاصل کیا- اور بالخصوص شاید آسمان نے روئے زمین پر اتنی صدیاں کسی جماعت یا قوم کا وہ اقتدار نہ دیکھا ہو گا جو ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کی زرخیز زمین پر نصیب ہوا اسلامیان ہند تعلیم، معیشت، سیاست ،تہذیب و ثقافت غرض کے ہر شعبہ میں بلندیوں کے اعلی مینار پر فائز تھے- لیکن سلطنت مغلیہ کے عملی زوال کے بعد یہی قوم اسی سر زمین پر درماندہ اورپسماندہ ہوگئ، مغلیہ دور حکومت کے بعد انگریزی حکومت کا مسلمان شکار اور لقمہ تر بنتے رہے -
بعد ازآں 1947 عیسوی کی جنگ آزادی ہندوستانی قومیت کے جذبہ کے تحت کامیابی سے ہمکنار ہوئی، اس جنگ میں بھی مسلمان پیش پیش تھے البتہ اس جنگ میں غیر مسلم بھی ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے- چونکہ تقریبا اس حقیقت سے تمام دانشور اور مؤرخ اتفاق کرتے ہیں کہ یہ آزادی بھی پہلی جدوجہد آزادی 1857,ء کا ہی نتیجہ تھی، جس کے حقیقی داعی اور محرک مسلمان تھے- اس طرح 15/ اگست1947 ء کو برطانوی سامراج کے تسلط سے ہمارا ملک آزاد ہوا، اور 26 /جنوری0 195ء کو ہندوستانی آئین کا نفاذ ہوا اور ہندوستان ایک خود مختار اور ایک مکمل طور پر "ریپبلکن یونٹ" بن گیا، جس کا خوااب ہمارے رہنماؤوں نے دیکھا تھا اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لئے جام شہادت بھی نوش کیا تھا -
لیکن انگریز اس ملک سے جاتے جاتے نہ صرف "تقسیم وطن" کا زخم دے گئے، بلکہ ہندوؤں کو ہمیشہ کے لیے اقتصادی اور سماجی طور پر مستحکم کر گئے اور مسلمانوں کو بے دست و پا چھوڑ گئے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ زخم اب ناسور بن چکا ہے، جس کی تکلیف سے وہ اب تک کراہ رہے ہیں اسی کے ساتھ ہی انگریزوں کی سازشوں اور آر ایس ایس اینڈ کمپنی کی شعوری کوششوں سے مسلمانوں کو یہ باور کرا دیا گیا کہ اس تقسیم کے حقیقی ذمہ دار وہی ہیں ۔ نتیجتا مسلمان احساس گناہ سے بوجھل ہو گئے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آزادئ ہند کے حقیقی داعیوں کو اس طرح "غدار وطن" کے روپ میں کھڑا کر دیا گیا ہے کہ انہیں صفائی دینی مشکل ہو گئی ہے۔ دوسری طرف انگریزوں کی اقتصادی مار اور آزادی کے بعد حکومتی مناصب پر براجمان فرقہ پرست ہندوؤں کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں مسلمانوں کی اقتصادی پوزیشن سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ بن چکی ہے:
"مختلف ریاستوں کے مسلمانوں کے حالات میں( اور ان مسلمانوں کے حالات میں جو اپنے آپ کو او- بی- سی اور دیگر زمروں میں شمار کرتے ہیں) قابل لحاظ فرق پایا جاتا ہے اور یہ مسلم فرقہ ترقی کے عملا تمام مظاہر میں خسارے اور محرومیوں سے دوچار ہے- درحقیقت زیر غور تمام اشاریوں کے لحاظ سے مسلمانوں کی حالت کم و بیش ایس -سی /ایس- ٹی سے کچھ بہتر، مگر ہندو .O.B.C دیگر اقلیتوں اور عام ہندؤوں (بیشتر علی ذات والے) سے بدتر ہے" (سچر کمیٹی رپورٹ بارھواں باب بحوالہ سی -پی- آی کی نظر میں بھارت کے مسلمان، صفحہ :58 )
یہ حق ہے کہ آزادئ ہند کے بعد سے مسلسل مسلمانوں پر یورش رہی ہے، مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو، شعاءر اسلام، مسلم معاشرت اور تہذیب و ثقافت ہر چیز فسطائ قوتوں کے نشانہ پر ہے، لو جہاد، دادری، سرجیکل اسٹرائک، گھر واپسی، گورکشا، یکساں سول کوڈ اور طلاق و حجاب جیسے مسائل میں مسلمانوں کو الجھا دیا گیا عصمتوں کو لوٹا گیا، ماب لنچنگ کے ذریعے بے گناہوں کو قتل کیا گیا، فسادات میں نسل کشی کی گئی، جا بجا اذان پر پابندی، قبرستان پر قبضہ، مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش، ہاڈیوں کی تلاشی، مدارس اسلامیہ کو بند کرا دینے کی سازش، میڈیا کی مسلم دشمنی حکومت کی بے حسی، خاموش تماشا بینی، ظالموں کی پشت پناہی، قاتلین کو بچانے کی کوشش اور انسانیت سوز کارناموں پر شاباشی، حوصلہ افزائی، مٹھائی اور پھولوں کے ذریعے جشن اور اب سی- اے- اے، این- آر- سی اور بابری مسجد کی جگہ" رام مندر" کی بنیاد گویا کہ مسلمانوں کے شہری حقوق اور مذہبی آزادی چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ،اور یہ نفرتوں کی آندھیاں مسلمان اور ان کے مذہبی تشخص کو خاکستر کرنے پر تلی ہوئی ہیں-
حالانکہ آئین ہند میں اکثریت اقلیت پر کوئی ظلم و جبر اور زیادتی نہ کر سکے اس کے لیے باضابطہ مستقل دفعات رکھیں ہیں اور ملکی دستور کے حصہ سوم (partlll) میں دفع 12 سے 35 تک بنیادی حقوق کا بیان ہے - جو اس طرح ہیں: (1)برابری کا حق (2) آزادی کا حق (3) استحصال کے خلاف حق (4) مذہبی آزادی کا حق (5) تعلیمی و ثقافتی حق (6) آئینی چارہ جوئی کا حق-
اگر کوئی حکومت مذکورہ قوانین میں سے کسی قانون کو رد کرتی ہے تو حکومت کا فیصلہ ہی باطل قرار پائے گا- دستور ہند کے مذہبی آزادی دینے کے باوجود مسلم پرسنل لا میں وقتا فوقتا مداخلت کی گئ جس کا واضح ثبوت مطلقہ معتدہ کے شوہر پر نان و نفقہ کا عاءد کرنا، طلاق ثلاثہ بل، اوقاف کی آمدنی پر ٹیکس اور سائرہ بانو کیس جیسے مسائل ہیں -
لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ ہو یا کسی اور کمیشن کی خبر بر وقت تو مسلم قائدین اور عام مسلمانوں میں اپنی پسماندگی اور پستی پر آنسو اور کف افسوس ملتے ہوئے دیکھا ہےلیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں- یاد رکھیں! بھوک سے تڑپ رہے انسان کے لئے چند محبت بھرے جملے نہیں بلکہ اس کو بروقت کھانے کی ضرورت ہے، بیمار جسم کا علاج اس پر آہ و فغاں اور آنسو بہانا نہیں بلکہ اس کو دوا چاہیے- اسی طرح بیمارقوموں کا علاج اپنی زبوں حالی اور خسارے پر آہ و فغاں اور صف ماتم بچھا نہیں بلکہ حرکت و عمل اور تعمیر و ترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت اپنے مسائل و مصائب کا حل تلاش کرکے اپنے مستقبل کو روشن و تابناک کرنا ہے-
اس لیے ضرورت ہے کہ اب بڑی حکمت عملی کے ساتھ کام لیا جائے ، اور اپنا بھولا ہوا سبق یاد کر کے اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کیا جائے، ہمیں اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر اپنے حال کی تعمیر اور اپنے مستقبل کے لیے اطمینان بخش لاءحہٓ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے- اگر اب بھی حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ نفرتوں کی چلائی جانے والے آندھیاں اسلامیان ہند کو ایک تنکے کی طرح اڑا لے جائیں گی اور مسلمان اپنے وجود کو بھی ہندوستان میں باقی نہیں رکھ پائیں گے- تو سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو اور لوگوں کو قانون الہی کا پابند بنائیں، فرائض و واجبات پر پابندی سے عمل کریں، محرمات و مکروہاتسے لازما گریز کریں، اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں اور اپنے ما تحت جملہ افراد کو شریعت اسلامیہ کا خوگر بنائیں، یعنی شریعت اسلامیہ کو انفرادا اور اجتماعا نافذ کریں اور اسے اپنی زندگی کا حصہ قرار دیں، کیونکہ اس کے بغیر نہ ہی کوئی کوشش نتیجہ خیز ہوگی ٗاور نہ ہم پر رحمت الہی کا نزول ہوگا-
اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے لیے خود احتسابی ضروری ہے کسی بھی قوم کی ترقی میں یہ فیصلہ کن امر ہے -شادی بیاہ، تیجہ، چالیسواں اور دیگر بے جا مذہبی اور غیر مذہبی رسومات میں اپنا زر کثیر بے دریغ بہانے کے رجحانات پر ہمیں روک لگا نا ہوگا جب تک مسلمان مجموعی طور پر اپنی نفسیات اور چال چلن کو بدلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا فیصلہ خود نہیں کریں گے، اس وقت تک ہر طرف سے ہونے والے حملوں سے انہیں بچانے میں کوئی بھی دوسری طاقت مدد نہیں کر سکتی- جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے "لانغیربقوم حتی یغیر ما بانفسھم " قوموں کی حیات و بقا ان کے تخیلات و نظریات اور چال چلن پر موقوف ہوتی ہے- لہذا مسلمانوں کی ذہن سازی کرنے ان کی نظریات کو بدلنے اور عادات و افعال کو شریعت طاہرہ کے مطابق کرنے کے لئے دانشوران قوم و ملت کو آگے آنا ہوگا اور یہ کام کسی ایسی کل ہند کمیٹی کے ذریعے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جس میں مذہبی پیشواؤں اور رہنماؤوں کے علاوہ سیاسی اور سماجی کارکنان بھی شامل ہوں-
اس لۓ ہر علاقے کی الگ مسلم تنظیمیں ہوں جن کی طرف سے وقتاً فوقتاً ایسے کیمپ قائم کیے جائیں جن میں علمائے کرام اور ذی استعداد، تجربہ کار، مادہٓ تفہیم رکھنے والی معلمات و مبلغات کو مدعو کیا جائے اور نوجوانوں، بچوں اور ان کے سرپرستوں کو بلا کر بچوں کی دینی تعلیم وتربیت ّ نوجوانوں کی اسلامی ذہن سازی، مسلمانوں کو آپسی لڑائی جھگڑے بے جا رسومات اسی طرح میاں بیوی یا رشتہٓ ازدواج میں منسلک ہونے والے افراد کو بلاکر حقوق زوجین پر مکمل روشنی جیسے اہم عناوین پر گفتگو کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ اپنی زندگی کے مراحل کو کس طرح طے کریں اور ساتھ ہی معلمات خواتین کو درست مطالبات وخواہشات کو پیش کرنے کا طریقہ بتائیں اور صبر و تحمل کی بھی تلقین کریں، تاکہ شادی کا بندھن مضبوطی سے قائم رہے اور کوئی بھی خاتون یہ محسوس نہ کرے کہ اسلام نے اس کے ساتھ ناانصافی کی ہے-
اسکول کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو دین سے قریب کرنے کے لیے ان کی تعطیلات کے موقعوں پر دینی تربیتی کیمپ کا انعقاد کریں، جن میں ان کے معیار کے مطابق اسلامی احکام و نظریات کی تشریح کی جائے- انہیں مذہبی تعلیمات سے قریب کرنے کی اور دین و مذہب کے عقائد و معمولات کو ان کے دلوں میں راسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے-
اسی طرح ہماری مساجد و محراب سے لے کر دینی جلسوں کے اسٹیجوں اور دیگر مذہبی تقریبات سے مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں سے لے کر اہم فروعیات سے آگاہ کریں اور اس بات کی بھی ترغیب دی جائے کہ وہ شریعت سے متعلق اپنے تمام معاملات کو کورٹ کچہری میں لے جانے کے بجائے شرعی دارالقضاء ، اپنی مسجد کے لائق و فاءق امام یا علاقے کے مفتی اعظم سے حل کرائیں اور یہ حضرات قرآن وحدیث کے مطابق جو بھی فیصلہ دیں اس کے آگے سرتسلیم خم کریں- مسلم معاشرے کے مسائل میں شدید انتشار وبگاڑ اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب سے ہندوستانی مسلمان قرآن و سنت و اقوال فقہاء کو یکسر ترک کرکے دنیاوی معاملات کے ساتھ اپنے مذہبی معاملات بھی سرکاری عدالتوں میں پیش کرنے لگے-
ان کے علاوہ دیگر اہم عصر جدید کے اعتبار سے سیاسی و مذہبی موضوعات کو اپنا عنوان سخن بنائیں اور درپیش مسائل میں عوام الناس کی مناسب رہنمائی کریں بالخصوص اسلامی تعلیمات کو زندگی کے ہر شعبہ میں برتنے اور اپنے اوپر شرعی قوانین کو نافذ کرنے کے سلسلے میں مسلم عوام کو بیدار کریں لیکن خطابات سادہ اور سہل زبان میں ہوں-
مگر صد افسوس! اس طرح کے خشک عناوین پر ہمارے موجودہ خطباء (الا ماشاء اللہ) کچھ لب کشائ نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس کے لئے عرق ریزی و شب خیزی کی ضرورت پڑتی ہے، یہ حضرات بنام نذرانہ موٹی موٹی رقم وصول کرکے بھی رٹے رٹاۓ مخصوص موضوعات پر ہی بولتے ہیں اس لئے جلسوں کی اصلاح نہایت ضروری امر ہے، اہل علم حضرات کو نکاح، طلاق ،فروغ تعلیم وغیرہ سیاسی فکری موضوعات پر گفتگو کی دعوت دی جائے اور جو حضرات دیے گئے عناوین پر بول نہ سکیں انھیں ان کے مطلوبہ نذرانہ سے محروم کر دیا جائے-
یعنی ہم میں سے ہر فرد کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ" ترجمہ:تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ (صحیح البخاری،کتاب العتق، باب العبد راع فی مال سیدہ ) اگر یہ کام ہم نے کرلیا تو وہ دن دور نہیں جب سنگلاخ زمین سے چشمہٓ صافی جاری ہو جائے گا اور پوری قوم اس سے تشنگی بجھاۓ گی-لیکن نیکی کی دعوت دیتے ہوئے حکمت، نرمی اور رواداری کا لحاظ ضروری ہے- کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے پاکیزہ اصولوں کو کچھ انتہا پسند مذہبی و غیر مذہبی جماعتوں نے بالائے طاق رکھ کر اسلام کو ایک اخلاقی نظام کے بجائے تفوق پسند سیاسی نظریہ بنا کر پیش کیا ہے-
اتحاد زندگی ہے:
جب مسلمانوں پر انگریز نامی قیامت خیز مصیبت آ پڑی تھی جب دشمن ان کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا اور ہندوستانی مسلمان اپنے ہر افق پر تباہی و بربادی کی گھٹائیں دیکھ رہے تھے اس وقت مسلمان اپنے اجتماعی جذبہٓ مدافعت کو بروئے کار نہ لا سکے اور وہ یہ ثابت نہ کرسکے کہ اگر تمام کفر ایک ہےتو تمام سلام بھی ایک ہے -اسی طرح آج بھی مسلمانان ہند ہر محاذ پر اختلاف و انتشار کا شکار ہیں آپسی رسہ کشی نے ہم کو توڑ کر رکھ دیا ہے اور دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے ہم اگر چھوٹے، بڑے، ذاتی، فروعی ،گھریلو اور خارجی تمام قسم کے اختلاف کو چھوڑ دیں تو بساط سیاست پر بھی ایک مثالی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں جس کی واضح مثال" یوپی" کی "ہریجن قوم" ہے جب اتحاد و اتفاق پیدا ہو جاتا ہے تو دریا و سمندر بھی راستہ دے دیتے ہیں، لق و دق صحرا کی راہیں مختصر ہو جاتی ہیں خوشی اور مسرت کے نغمہ الاپے جاتے ہیں ویرانیاں آبادیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور مسکراہٹوں کے ابشار پژمردہ لوگوں کو زندگی کی حرارت سے سرشار کرتے ہیں- محسن انسانیت نے انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کو باعث فتح و نصرت قرار دیا ہے میں آج اسی اتحاد و یگانگت اورمواسات و مواخات کا طالب ہوں جو کبھی اس امت کا اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کا طرہٓ امتیاز تھا- ہم اہل سنت وجماعت کو آپسی اختلاف و انتشار کی تشویش ناک صورتحال سے نپٹنے کے لئے آپسی مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ساتھ قرآن اور اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے-
قوموں کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت نا قابل فراموش ہے:
مسلمان اور دیگر اقوام کی فکری ساخت اور ترقی کی بنیاد علم ہے یعنی تعلیم دور جدید میں ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے نہ کہ کثرت تعداد تاریخ شاہد ہے کہ قیادت اور سربراہی کی باگ ڈور اور دنیا پر حکمرانی کے خواب کو اسی قوم نے شرمندہٓ تعبیر کیا ہے جو علمی میدان میں نمایاں ہے- ایک وہ دور تھا کہ اسلامیان ہند کی علم دانی کے ترانے آسمان کی رفعتوں اور کہکشاں کی بلندیوں پر گنجا کرتے تھے لیکن آج ہماری کم علمی اور جہالت کے چرچے تحت الثری کی بستیوں میں ہو رہے ہیں- سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اجزاء کا جب ہم تحلیلی جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں- کہ ہندوستان کی مجموعی آبادی کے لحاظ سےعصری درسگاہوں، اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز میں ہماری تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے- اعلی تعلیم کے شعبہ میں مسلم طلبہ کے اندراج کی شرح، قومی شرح سے بہت کم ہے-اورمدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد چار فیصد ہے ،جبکہ ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ مسلمان عموما اپنے بچوں کو دینی تعلیم ہی سکھاتے ہیں اور 2011 عیسوی کی مردم شماری کے مطابق مختلف اقوام میں ان پڑھ افراد کا تناسب حسب ذیل ہے: بدھسٹ: 2 .28 % ، سیکھ: 32.5، % ، کرسچن: 25.6 %، ہندو : 36.4 %، مسلمان: 42.7%۔
یعنی مسلمان آج تعلیم کے میدان میں سب سے نچلی سطح پر ہیں. تو پھر ہر الیکشن پر سچر کمیٹی رپورٹ، رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹ، مسلم ریزرویشن وغیرہ کے شورشرابا کا کیا مطلب؟
ایسی صورت میں باضابطہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کریں اور ابتدائی دس سالوں کے لئے مسلمانوں کے اندر موجود تعلیمی وسائل اور درسگاہوں کے تحت تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کو فروغ دیں- اور با قاعدہ فروغ تعلیم کے لئے تحریکں چلائیں اور ہر شہر اور ہر قصبہ میں جلسے کریں اور مسلمانوں کو تعلیم کو لے کر بیدار کریں -اور ہر شہر میں کالجز اور یونیورسٹیز کو قائم کریں اور مسلمانوں میں جدید عصری علوم و فنون، سائنسی ٹیکنالوجی انقلاب برپا کرنے کے لئے سائنسی و تکنیکی سینٹرز قائم کئے جائیں، ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں ان اہل ثروت کی کمی ہے جو ملت کی صلاح و فلاح کی خاطر کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ایسے حضرات کو فنڈنگ کر کے ان کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے معاشی وسائل میں سے کچھ مسلمانوں کے غریب و نادار بچوں کی تعلیم کے لیے انسانی ہمدردی کے تحت ان پر صرف کرنے کے لئے مختص کریں ، اور آج مدارس اسلامیہ کا تو جال بچھا ہوا ہے البتہ ضرورت ہے ان کو نصاب و نظام تعلیم کے اعتبار سے مستحکم اور منضبط کرنے کی اور باقاعدہ معیاری تعلیم و تعلم کے انتظام کی- اور جن جگہوں پر مکاتیب اور مدارس نہ ہوں وہاں محلے اور قصبہ کے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے مسجد ہی میں مکتب کا انتظام کریں۔
اب میں نصاب تعلیم پر مختصر روشنی ڈالتا ہوں- کیونکہ ایک وہ دور تھا کہ ہندوستانی مدارس سے مفتی، قاضی، مفکر، جج، سائنس دان اور انجینئر وغیرہ ہر شعبہ میں کام کرنے والے وجود پاتے تھے لیکن آج فارغین مدارس تقریبا مساجد اور مدارس میں محصور ہو کر رہ گئے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب فلسفہ کی رداۓ کہنہ کو اتار دیا گیا اور دنیا جدید عصری علوم و فنون، ایجادات و تحقیق کے پیچھے دوڑ رہی تھی ،اس وقت اہل مدارس اس جدت کی طرف متوجہ نہ ہوئے، لیکن مومن کی شان یہ ہے کہ "لا یلدغ المؤمن من جحر مرتین" اس لئے ہماری تمام دانش گاہوں میں، سیاست، معیشت ،تصوف، عصری اور دینی علوم و فنون سے لیس ایک جامعہ نصاب تعلیم ہونا چاہیے-
اس کو اختصار سے یوں ذکر کیا جا سکتا ہے:
1 کتاب وسنت فقہ و تاریخ اور علوم عربیہ کی وہ تمام کتابیں پڑھائی جائیں جو اساطین امت کی تحریر ہیں.
2 سیرت صحابہ اور میںدان تبلیغ کے شہ سواروں کے کارناموں سے طلبہ مکمل روشناس ہوں ۔
3 اتنی مقدار میں ادیان و مذاہب اور افکار تازہ کی جانکاری ہو کہ وہ ان کا رد کر سکیں .
4 قوموں کی ذہنیت اور جدید عصری علوم پر ان کی گرفت مضبوط کرائی جائے.
میں نے نصاب تعلیم پر تفصیل سے اس لیے گفتگو کی کیونکہ نصاب کا معیاری تعلیم کے اندر بہت زیادہ دخل ہے. لیکن عصری علوم کا بار اتنا زیادہ نہ ہو کہ دینی مضامین کے لئے خاطر خواہ وقت ملنا دشوار ہو جائے۔
اسی طرح کسی بھی ادارے کے بانی کے لیے ضروری ہے کہ اخلاص وفکر صحیح کے ساتھ ساتھ تعلیم کے بارے میں اس کے نظریات واضح اور مفید ہوں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ استاذ طلباء کی آرائش علم و فکر کا محور ہے ،مگر یہ وقت کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ استاذ بعض مدارس میں عضو معطل اور مجبور محض کی تصویر بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات کو بدلنا ہوگا مدرسین اور ملازمین کی حسن کارکردگی پر انہیں سراہا جائے تاکہ پوری دلجمعی، دلچسپی اور دل بستگی کے ساتھ وہ اپنے فرائض انجام دیتے رہیں لیکن شریعت کی مخالفت پر کسی قسم کی رعایت ان مدارس کے طلباء اور ذمہ داران اور اساتذہ کی نہ کی جائے۔ ساتھ ہی انتظامیہ اور اساتذہ مل کر دونوں درون ادارہ ایسی پر بہار فضا تشکیل دیں کہ طلبہ کا حوصلہ بلند ان کا ذوق و شوق تازہ وتابندہ اکتسابی صلاحیت اجاگر اور خوابیدہ امنگ بیدار ہو۔
یاد رکھیں ! دور جدید کی جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ تعلیمی ،تحقیقی اور سائنسی محاذ پر لڑی جارہی ہیں اس لیے ہم کو نشر علوم کے تمام انسانی ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا چاہیے تاکہ مسلمانوں میں تعلیم عام سے عام تر ہو ۔محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا" الحکمۃ الضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بھا"( رواہ ترمذی 26 87) ترجمہ: حکمت مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے تو وہ جہاں اس کو پائے تو اس کا وہی زیادہ حقدار ہے۔ میرے خیال سے اگر ہم تعلیم کو عام کرنے اور اسلامیان ہند کو جہالت کے دلدل سے نکال کر علم کی روشنی میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا ستارہ اقبال بلندیوں کے عروج پر ہو گا۔
قلمی استحکام ناگزیر ہے:
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بڑھتے اثر و رسوخ کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اہمیت بالکل کم نہیں میں اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اخبار و رسائل اور کتب کسی بھی قوم یا جماعت کے معیار کو قائم رکھنے، حساس و بیدار کرنے اور اس کو شہرت دوام بخشنے کا سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری پوری جماعت میں ایک بھی قابل ذکر روزنامہ نہیں اور رسائل و جرائد کی کمی اہلسنت والجماعت میں شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اس سلسلے میں اسلامی تحریکات، انجمنوں، اکیڈمیوں اور علمائے کرام کو ملکی سطح پر منصوبہ بندی کرنی چاہیے ، مختلف موضوعات کو مختلف اداروں کے سپرد کیا جائے، اہداف مقرر کیے جائیں اور جس مورچے یا میدان میں کمی ہو اس کو دور کیا جائے حساس موضوعات کا انتخاب کرکے سبق آموز باتوں پر مشتمل تصنیف شدہ اور نو تصنیف خوبصورت چھپواکر پمفلیٹ تیار کیے جائیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ ہدیہ اور بغیر ہدیہ کے عام کرنے کی کوشش کی جائے اسی طرح نئے درپیش مسائل پر اصلاحی رسائل و کتب تصنیف کرا کے لوگوں میں تقسیم کریں اور ان کی اہمیت کا احساس دلاکر ان کے مطالعہ کی بھی تلقین کی جائے ہمارے روزنامہ اور اخبار ہوں جن کو نگراں حضرات شہر۔ شہر اور قریہ۔ قریہ پہنچائیں جن میں مکر و فریب دروغ گوئی وکزب بیانی اور گندگی و بے حیائی کی دبیز چادر میں دبی ہوئی تاریخ اور خبروں کو شائع کیا جائے اور وقتاً فوقتاً مذہبی مضامین اسلامی سوال و جواب بھی شامل ہوں ان امور کی انجام دہی میں اس علاقے کے کسی ذمہ دار، مخلص، صاحب فکر و بصیرت کی رہنمائی حاصل کریں جو گاہے بگاہے حالات و واقعات کے تناظر میں مفید مشورہ دیتا رہے اور حاجت پڑنے پر آپ کو اطلاع دے پھر آپ سرکوبئ اعداء اور مذہب حق کی حفاظت و پاسبانی کے لیے رسالے، میگزین اور جرائد و کتب بھیجتے رہیں۔
سوشل میڈیا کا استعمال نا قابل فراموش امر ہے:
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہر گھر اور ہر چمڑے کے خیمے تک اسلامی تعلیمات پہنچانے کا موثر ترین ذریعہ ہے عام مسلمان اور بالخصوص علماء اپنے وسائل کو اس میدان میں بھی کھپائیں مسلم ادارے، تنظیمیںں، تحریکیں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں اور اسلام و کفر کے مابین جاری کشمکش پر عملی میدان میں انٹرنیٹ کے ذریعے غلبہ حاصل کریں۔ مسلم فارمز قائم کیے جائیں کیوں کہ مسلم فارمز بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے کہ یہاں پر لکھا ہوا عام طور پر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔اور اسلام "سیکشن" کے لیے ہمہ وقت ایک یا کئی علماء کی دستیابی رہے -لیکن حسب ذیل باتوں کا خیال رہے.
(1) بین المذاہب بحثوں میں جانکار اور علماء ہی پڑھیں۔
(2) انتہائی محتاط زبان کا استعمال۔
(3) اخلاقی افکار کی ترویج پر زور ۔
(4)صحیح اسلامی عقائد و نظریات کی اشاعت-
لاکھوں کروڑوں لوگ روزانہ ہندوستان میں ہی کتنی ویب سائٹس کو سرچ کرتے ہیں ان کو وھابی ، قادیانی اور اہل حدیث وغیرہ فرق باطلہ کا کثیر مواد مل جاتا ہے اور اہل سنت و جماعت کی ایک یا دو ویب سائٹس دستیاب ہوتی ہیں اس لئے خود سنی مسلمان اور غیر مسلموں تک اسلام کی صحیح تعلیمات نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ اسلام اور اس کے نظریات سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ اسلۓ ہماری کارآمد اور صحیح اسلامی عقائد و نظریات اور حقیقی اسلامی ادب پیش کرنے والی انٹرنیٹ پر کثیر تعداد میں ویب سائٹس بھی ہونی چاہیے ۔
اور ساتھ ہی مسلم معاشرے میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے سبب جو اخلاقی گراوٹ ،تعلیمی زوال اور معاشرتی برائی جیسے مسائل ملت کے بہی خواہوں کے لیے ایک بہت بڑا المیہ بنتے جا رہے ہیں حتیٰ کہ اس کے ناجائز استعمال کی وجہ سے جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی تمیز بھی مفقود ہوتی جا رہی ہے فحش و عریاں تصاویر کا دیدار، عشقیہ و مزاحیہ چیٹنگ و گفتگو کا چلن اور تضیع وقت جیسی محرومی یہ وہ رذیل حرکات اور شنیع اعمال و افعال ہیں جن سے نسل نو کا مستقبل تاریک اور بھیانک ہوتا جا رہا ہے۔ اس درد ناک خسارے سے بھی ملت کو بچانے کی اشد ضرورت ہے والدین اپنے بچوں کو اس ہلاکت سے بچانے کی ازحد کوشش کریں اور اپنے بچوں کو دینی اور مذہبی پیغامات اسلامی ویب سائٹس کے مطالعہ کی ترغیب دیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اسلامی مواد میڈیا کے ہر شعبہ میں کثیر تعداد میں موجود ہو۔
بلا سیاسی استحکام ترقی بعید از امکان:
مسلمانان ہند کو جس طرح زندگی کے دوسرے تمام شعبہ جات میں پستی کے غار میں ڈھکیلا گیا ہے اسی طرح سے سیاسی میدان میں بھی ان کو مجبور محض کر دیا گیا ہے بے ہنگم سیاست تنظیمی لا مرکزیت اور دستوری قیادت کےعدم فقدان نے مسلمانان ہند کو پہلے سے کہیں زیادہ پسماندہ کر دیا ہے۔ اور لے دے کہ ہمارے مسلم سیاستدانوں کوبس یہی ایک راستہ نظر آتا ہے کہ ملکی صوبائی اور ضلعی سطح پر کسی مضبوط پارٹی میں پارٹ ٹائم ملازمت کی حیثیت سے اپنا نام درج کرا دیتے ہیں لیکن آزادی کے بعد سے اب تک نام نہاد کثیر سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو دیا کم اور لیا زیادہ انہیں پارٹیوں کی پالیسیوں نے مسلمانوں کو دلت سے بدتر بنا دیا ہے جس کی جسٹس سچر کی رپورٹ شاہد ہے ۔لیکن حالات کا رونا رونا اور کسی کے سہارے کے انتظار میں آنکھوں کو پتھرانا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے ۔
اب صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمانان ہند کے جملہ قائدین سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے ذاتی اور فروعی نوعیت کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تمام خانقاہوں، تنظیموں، اسٹیجوں، مدرسوں اور بوڑھوں کے ذمہ داران متحد ہوکر جمہوری طریقے پر امت کی صلاح و فلاح اور روشن مستقبل کے لیے کھڑے ہو جائیں، اور سیاسی محاذ پر خود آگے بڑھ کر کثیر جہتی لائحہ عمل تیار کریں کیونکہ اس کے بغیر ہم حکومت وقت سے اپنے حقوق اور مراعات ہرگز حاصل نہیں کر سکتے لیکن اس میدان میں مسلم وحدت لازمی امر ہے ۔ اس لئے اہل سنت کے بلند فکر ،شاہین صفت اور سیاسی بصیرت رکھنے والے علماء و دانشور حضرات ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم تیار کریں اور قوم کو یہ باور کرائیں کہ جس طرح تم نے ان پارٹیوں کو بغیر اپنے مذہب و مسلک پر تولے ہوئے سپورٹ کیا اور ان کی حکومت بنائی اسی طرح مسلم قیادت کو مضبوط کریں اور اس کے بینر تلے مسلم مسائل کو حل کریں-اور وقت پڑنے پر اسی کے سائے میں پرزور احتجاج کریں اور اپنی بات حکومت تک پہنچائیں کر اپنا حق حاصل کریں اور ہماری مسلم قیادت کے ممبران ،ممبران پارلیمنٹ اور دیگر با اثر و رسوخ سنجیدہ قسم کے لوگوں سے خصوصی ملاقاتیں کرکے ان کی ذہن سازی کریں اور طلاق ثلاثہ بل اور .N.R.C جیسے درپیش اور مستقبل کے مسائل کے سلسلے میں ہونے والے ملکی اور مذہبی نقصانات اور نفاظ کی صورت میں آنے والے ضرر رساں نتائج کو ان کے سامنے دلائل قاہرہ کے ذریعے واضح کریں۔
مسلم ووٹ کی جو بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے اس کے لیے بھی مسلم قیادت کو آگے آنا ہوگا پھر زمینی سطح پر راہیں ہموار کرنی ہونگی،بایں طور کے الیکشن کے قبل ہی سے کوشش کی جائے کہ جس علاقے سے ایک مسلم امیدوار ہو تو دوسرا وہاں سے نہ کھڑا ہونے پائے کیونکہ اس سے ہمارے دشمن کو بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
اس وقت ایک بڑے تو سلگتے ہوۓ مسئلہ پر ہم کو اپنا لاحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی اور فلاح و بہبود کی خاطر جو وقف بورڈ تشکیل دیے گئے ہیں یہ بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہیں وقف کی جائیدادوں سے ہم نے آنکھیں پھیر لیں تو کچھ قوم مسلم کے دشمنوں اور غداروں نے اپنی نظریں ان پر گاڑ لیں، اور آج عالم یہ ہے کہ غریبوں اور مظلوموں کو حق دینے کے لئے بیش قیمتی جائیدادیں اب کچھ مخصوص لوگوں کی جاگیریں بنتی جا رہی ہیں اور ہم خاموش ہیں۔ وقف کی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے کسی کمیشن کونسل اور بورڈ پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں خود اپنی آنکھیں کھولنی ہونگی کیونکہ وقف کی جائیدادیں کسی کی جاگیر اور ملکیت نہیں ہیں ۔یہ لوگ کبھی بھی غریبوں اور مظلوموں کو ان کا حق نہیں دیں گے، سنی وقف بورڈ ہویا کوئی اور، ان میں بعض ممبران تو وہ ہیں جو دن رات اقتدار اور حکومت کے اطراف گھومتے رہتے ہیں اور راقم السطور، کہتا ہے کہ سنی وقف بورڈ بھی مسلمانوں کا تنہا اور حقیقی نمائندہ نہیں رہا یہ کبھی بھی جملہ ہندوستانی مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہابیوں نے اسے ہائی جیک کرلیا ہے اس لیے اس کا فیصلہ تمام مسلمانوں کا فیصلہ نہیں ہے ان حالات میں مسلم لیڈر شپ کو اس طرف بھی پیش قدمی کرکے وقف کی جائیدادوں کے لیے نئے سرے سے بورڈوں کو تشکیل دینے کی کوشش کرے۔ اور رہ گئی بات سنی وقف بورڈ کی نمائندگی کی تو یا تو اس کو نئے سرے سے تشکیل دیا جائے جس میں ذمہ دار اور قوم کے وفادار حضرات شامل ہوں یا حکومت سے اس کا مطالبہ کریں کہ حکومت خود مسلم تعلیمی اداروں سے راۓ لے کر فیصلہ کرے اور مرکزی مدرسہ بورڈ کو قائم کیا جائے ۔
ہمارے سامنے ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمان خود اپنے حقوق سے نا آشنہ ہیں تعلیم، تجارت ،ملازمت وغیرہ دیگر شعبہ جات میں ان کو جو بورڈوں اور حکومت کی جانب سے سہولیات اور سبسڈی دی جاتی ہیں وہ ان کا بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیونکہ بورڈوں اور حکومت کی ان کی ترقی کو لے کر کیا پالیسی ہے اس سے وہ نا آشنہ رہتے ہیں اس سے ہوتا یہ کے" گھر پے آئی ہوئی دولت واپس ہو جاتی ہے" ہندوستان میں سواد اعظم اہلسنت و جماعت کی جو تحریک انجمن اکیڈمی اور دیگر شعبہ جات موجود ہیں ان کو اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ مسلمانوں کو صحیح وقت پر حکومت اور بورڈوں کی ان کی ترقیکو لے کر پالیسیوں اور دیگر اہم معلومات فراہم کرنا اپنا فرض منصبی سمجھنا چاہیے۔
ساتھ ہی ہمارے لئے نیکی کی دعوت دیتے ہوئے اسلامی اصولوں، حکمت ،نرمی اور رواداری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے"و ذکرھم باللتی ھی احسن " اگر کسی کے پاس ڈھیروں علم ہو علم کے بوجھ سے اس کی پیٹھ دوہری ہوئی جا رہی ہو لیکن اس کے اخلاق و کردار اندازواطوار عادات و خصائل کا قبلہ اسلام کے مقرر کردہ اصولوں کی طرف نہیں ہے تو ایسی قوم اندھے غاروں میں حیران و سرگرداں رہے گی اسلامیان ہند کو ہم اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ ہر وقت دفاعی معاملات میں محسن انسانیت کے عملی نمونے کو اپنے لئے حرز جاں بنائیں اور برادران وطن سے محبت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں کیونکہ مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج نفرت کا آج وہ ماحول ہے جو فرقہ پرست جماعتیں پیدا کر رہی ہیں ان حالات میں مسلمان اور دیگر اقوام تک اسلام کی صحیح اور پاکیزہ تعلیمات حاصل کرکے سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مؤثر گوشے پہنچائیں اور ان غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کریں جو اسلام کے تعلق سے دشمنوں نے پھیلا رکھی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر مسلمان تو مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ بھی اخلاق و کردار سے آپ پیش آئیں تو آپ کا بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کا ہم خیال بن سکتا ہے ہمارا ہر عمل ہر قول ہر بات ہر سوچ ہر لفظ غیر مسلموں اور اور مسلمانوں کے سامنے بطور اسلام کی تبلیغ کے پیش ہو اس فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے زمانہ کے اعتبار سے ہر ذریعہ کو استعمال کریں۔ خدمت خلق ہی کو ہم اپنا شعار بنا لیں اور ملک ہند میں خدمت خلق کی مہم کو پوری قوت کے ساتھ بڑھاوا دیں ہر شخس اپنے حلقے میں بااثر مسلمان اور غیر مسلموں کے ساتھ روابط استوار کرے اور ان کے ذہن میں اسلام کے تعلق سے جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں انہیں فرو کریں اگر ہم نے یہ کر لیا تو جس طرح کانٹوں سے گل سرخ کے پتے نکلتے ہیں اسی طرح ہمارے لیے انشاءاللہ سنگلاخ زمین سے چشمہ صافی نکلے گا جس سے صرف ایک قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا تشنگی بجھائے گی ۔
احساس کمتری اور محدود ذہنیت سے احتراض:
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے حالات واقعی بہت مشکل ہیں شرور و فتن کی تندو تیز ہوائیں اس کی بنا کو اکھاڑ دینا چاہتی ہیں مگر یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ رکھنی چاہیے کہ جس طرح احساس برتری انسان کو غرور و تکبر جیسی بیماریوں کا شکار بنا دیتا ہے ایسے ہی احساس کمتری اور محدود ذہنیت بھی آدمی کو مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا کر دیتی ہیں ہمارے اندر پوری دنیا کو سر کرنے چاند پر کمندیں ڈالنے اور تمام طاعوتی فاشسٹ اور ناپاک طاقتوں کو کرہٓ ارض سے ختم کرنے کا جذبہ کارفرما ہونا چاہیے اس دوران اگرچہ آسمان آگ برسائے اور زمین سے شعلہ نکلیں تب بھی ہمارا یقین ہونا چاہیے کے مصائب و آلام کی یہ تاریک راتیں ایک نورانی صبح میں تبدیل ہو کر رہیں گی یاد رکھیں! مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اعلی ترین ہے مسلمانوں کی ایجادات بے شمار ہیں مسلمانوں کے کارنامے بے مثال اور ان کے مفاخر منقطع النظیر ہیں
ہاۓ افسوس! مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ کسی کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بہت سے لوگ اپنی تحریروں ، تقریروں اور مضامین میں سوائے مسلمانوں کو گالی دینے ان کی عیب جوئی اور ذلت و مسکنت کے بیان اور اسلامی تہذیب کی توہین کرکے مغربی تہذیب کو آئیڈیل کے طور پر پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے وہ خوداحساس کمتری کے شکار اورمغربی تہذیب زدہ ہیں اور پوری قوم میں اس بیماری کے جراثیم کو پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے ہمارے مسلم طلبہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو نوکری تو ملنا نہیں پھر پڑھ کر کیا کریں گے سنو تعلیم کا مقصد سروس حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر ہے اگر سب اسی طرح سوچ بنا لیں تو مفتی ،فقیہ، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ قوم مسلم کو کہاں سے ملیں گے۔ وہ مسلمان جو آج اعلیٰ حکومتی مناصب پر باوقار زندگی گزار رہے ہیں ان کے سامنے بھی رکاوٹیں تھیں مگر انہوں نے پر خار راہوں کو ایک حسین گلدستہ اور چمن بنا دیا۔ مسلمانوں اور خاص کر طلبہٓ مدارس و کالجز، مسلم تنظیموں اور تحریکوں کو احساس کمتری اور محدود ذہنیت سے نکلنا ہوگا اور اپنے اندر خود اعتمادی ،خود آگاہی، باطل سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ، یقین محکم، عمل پیہم، اپنے علم و فن پر فخر اور اپنے دین و تہذیب کی برتری کا یقین پیدا کرنا ہوگا مشکلات آئیں گی مگر ان سے حوصلے پست نہ ہونے پائیں ہمتیں سرد نہ ہوں بلکہ مضبوط ارادے، مستحکم عزائم کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں انشاءاللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
کچھ خاص باتیں:
1 نشرعلوم کے تمام انسانی ذرائع ابلاغ کو کام میں لا کر علم کی خوب ترویج و اشاعت کی جاۓ۔
2 ہر علاقے میں ایک بڑا مرکز قائم کیا جائے جہاں سے حالات اور مسلمانوں پر گہری نظر رکھی جائے۔
3ہندوستان میں سنی مدارس و جامعات میں یک جہتی پیدا کرنا تا کہ ان کا معیار تعلیم بلند ہواور تعلیمی وسائل مہیاہوں ۔
4شریعت کی روشنی میں مسلم مسائل کے حل کے لیے مختلف شہروں میں دارالقضا قائم کیا جائے۔
5ہر شہر میں حسب وسعت شعبہ تصنیف و اشاعت قائم کیا جائے۔
6 مسلمان اپنے معاملات باہم ھی فیصلہ کریں۔
7 مسلمان اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدیں۔
8مسلمان اپنی لیڈرشپ ہی کو ووٹ کریں۔
9 عصر جدید میں شائع ہونے والے فتاوی کے لیے ایک الیکٹرانک لائبریری قائم ہو۔
10 مسلمان اپنے تمام معاملات میں رضائے مولیٰ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اپنا اولین مطمح نظر بنائیں۔
11 ہماری "مجلس انتظامیہ" سال میں یا ایک مہینے کے بعد ایک ایسا اجلاس منعقد کرے جس میں مجلس عاملہ اپنے سال بھر کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرے ۔
اگر یہ میرے مذکورہ خیالات صحیح ہیں تو اٹھو اور شہر شہر قریہ قریہ کیمپ قائم کر کے جلسہ جلوس کر کے مسلمانوں کو ان مسائل کو لے کر بیدار کرو۔
اللہ تعالی اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلہ سے مسلمانوں کے مسائل کو حل فرمائے اور ان کی مصیبتوں کو دور فرمائے اور سب کو احکام شرعیہ کا پابند کرے- آمین بجاہ النبی الکریم۔ الحمداللہ وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہ اجمعین
از قلم عاشق القادری مصباحی نیا گاؤں لکھیمپور کھیری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں