توسل شریعت کے میزان میں
توسل تو وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور متقدمین و متاخرین امت سے صحیح طور پر ثابت ہے - حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس کا صدور بہت سی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے
منجملہ ان کے وہ دعا ہے جسے "ابن ماجہ" نے بسند صحیح حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ کہے کہ :
اللهم اني اسالك بحق السائلين عليك واسالك بحق ممشاي هذا اليك فاني لم اخرج اشرا ولا بطرا ولارياء ولا سمعۃ وخرجت اتقاء سخطك وابتغاء مرضاتك فاسالك ان تعیذني من النار وان تغفر لي ذنوبي فانه لا يغفر الذنوب الا انت
ترجمہ : اے اللہ تعالی اس حق سے سوال کرتا ہوں جو تجھ پر سائلین کا ہے اور تیری طرف اپنے اس چلنے کے حق سے کیونکہ میں تکبر ریار یا شہرت طلبی کی غرض سے نہیں نکلا بلکہ تیرے غضب کے خوف سے اور تیری مرضی چاہنے کے لئے نکلا ہوں تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھ کو دوزخ سے پناہ دے اور میرے گناہوں کو بخش دے تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا -
تو اللہ تعالی اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور ستر ہزار فرشتے اس کے لئے استغفار کریں گے- اس حدیث کو مولانا جلال الدین سیوطی نے بھی جامع کبیر میں اور بہت سے ائمہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے جہاں نماز کے لیے جاتے وقت دعائے مسنون کا بیان ہے یہاں تک کہ بعض کا قول ہےکہ سلف میں کوئی ایسا نہ تھا جو نماز کے لیے جاتے وقت یہ دعا نہ پڑھتا ہو پس الفاظ (بحق السائلین علیک) پر غور کیجئے کہ اس میں ہر مسلمان بندہ سے توسل ہے-
اور حافظ ابو نعیم نے" عمل الیوم واللیلۃ " میں حدیث ابو سعید سے بایں الفاظ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے جاتے تو فرماتے :
"اللهم اني اسالك بحق السائلين عليك"
اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس حق کے وسیلے سے جو سوال کرنے والوں کا تیرے اوپر ہے,
امام بیہقی نے بھی اس کو حدیث ابو سعید سے کتاب الدعوات میں روایت کیا ہے اور محل استدلال یہ قول ہے
اسالك بحق السائلين عليك اس تمام بیان سے یہ معلوم ہوگیاکہ توسل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا ہے اور آپ نے صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا ہے اور تابعین وتبع تابعین تمام سلف ہمیشہ نماز کو جاتے وقت اس دعا کا استعمال کرتے رہے ہیں اور کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا.
مزید ان احادیث صحیحہ کے جن میں توسل کی تصریح ہے وہ حدیث سے جسے ترمذی نسائ بیہقی اور طبرانی نے باسناد صحیح حضرت عثمان ابن حنیف رضی اللہ عنہ مشہور صحابی سے روایت کیا ہے کہ ایک نابینا نے آکرحضور علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کیا کہ میری بینائی کے لیے دعا کیجئے تو آپ نے فرمایا خواہ دعا کرو خواہ صبر کرو مگر بہتر صبر ہی ہے اس نے کہا کہ آپ دعا کر دیجیے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اچھی طرح وضو کر کے یہ دعا پڑھو:
اللهم اني اسالك واتوجه اليك بنبيك محمد نبي الرحمه يا محمد اني اتوجه بك الى ربي في حاجتي لتقضى اللهم شفعه في
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی محمد نبی رحمت کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور آئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تا کہ میری حاجت پوری ہو جائے ائےاللہ تعالی میرے بارے میں آپ کی شفاعت قبول فرما-
جب دوبارہ آپ کے پاس حاضر ہوا تو اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی-
ایک روایت میں ہے کہ ابنِ حنیف کہتے ہیں "قسم اللہ کی ہم وہیں بہت دیر تک باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شخص آیا تو(یہحالت تھی کہ) گویا کبھی اس کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں".
اے میرے عزیز! انصاف کی نگاہ سے دیکھو اس حدیث میں توسل کا ثبوت بھی ہے اور ندا کا بھی اگر وسیلہ بنانا شرک ہوتا تو نبی کبھی بھی اس کی تعلیم نہ دیتے -
اس حدیث کو بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں اور ابن ماجہ نے اور حاکم نے مستدرک میں باسناد صحیح روایت کیا ہے اور جلال الدین سیوطی نے جامع صغیر وکبیر( دونوں میں) ذکر کیا ہے لہذا ہمارے لئے وسیلہ کے ثبوت پر یہ دلیل ہیں اے لوگوں حق کو مضبوطی سے تھام لو کہیں تم دھوکہ نہ کھا جانا-
بعد وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کا ثبوت
منکرین توسل یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں تھا کیوں کہ اس دعا کا استعمال صحابہ و تابعین نے آپ کی وفات کے بعد بھی قضائے حوائج کے لئے کیا ہے چنانچہ طبرانی و بیہقی کی روایت ہے کہ ایک شخص اپنی کسی حاجت کے غرض سے حضرت عثمان کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں آیا کرتا تھا آپ اس کی طرف التفات نہ فرماتے اور اس کی حالت پر توجہ نہ کرتے تھے تو اس شخص نے حضرت عثمان ابن حنیف راوی حدیث مذکور سے شکایت کی انہوں نے اس سے فرمایا کہ وضو کر کے مسجد میں جا اور نماز پڑھ کر یہ کہ:
اللهم اني اسالك واتوجه اليك بنبينا محمد نبي الرحمه يا محمد اني اتوجه بك الى ربي في حاجتي
اور اپنی حاجت کا خیال کر اس نے جا کر ایسا ہی کیا پھر حضرت عثمان ابن عفان کے دروازے پر گیا تو دربان نے ہاتھ پکڑ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دیا آپ نے اس کو بٹھا کر فرمایا کہ اپنی حاجت بیان کر اس نے بیان کی تو آپ نے پوری کر دی پھر پھرمایا کہ جو حاجت تم کو ہوا کرے وہ بیان کر دیا کرو اس کے بعد وہ آپ کے پاس سے چلا گیا اور حضرت ابن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے وہ میری حاجت پر نظر نہ کرتے تھے یہاں تک کہ آپ نے ان سے میری گفتگو کرادی- فرمایا واللہ میں نے گفتگو نہیں کرائی لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا تو ایک نابینا نے آکر اپنے نابینا ہونے کی شکایت کی تھی (پھر آپ نےوہ پوری حدیث بیان کی)
لہذا اے میرے عزیز قاری ! اس حدیث میں دیکھ کہ آپ کی وفات کے بعد توسل و ندا ہے
حضرت آدم علیہ السلام کا توسل
آپ کے دادا حضرت آدم علیہ سلام نے آپ کے وجود سے پہلے جب شجر ممنوع کو کھا لیا تھا تو آپ سے توسل کیا تھا- اس حدیث کو بیہقی نے باسنادصحیح اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے جس کتاب کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا ہے کہ اسے ضرور دیکھو کیونکہ وہ تمام ہدایت و نور ہے (وہ حدیث یہ ہے)
حضرت عمر بن خطاب ربی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا ہوگئی تو عرض کیا کہ " پروردگار میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت کردے ".
یہ حدیث دیکھیے خود حضرت آدم علیہ السلام وسیلہ حضور کو بنا رہے ہیں اگر یہ ناجائز ہوتا تو حضرت آدم ہرگز ایسا نہ کرتے اور اللہ رب العزت آپ کو منع فرما دیتا لہذا یہ وسیلہ کے ثبوت پر بہترین دلیل ہے اور اس حدیث کو حاکم نے روایت کر کے صحیح بتایا اور طبرانی نے بھی روایت کیا.
حضرت عمر اور توسل
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب سے بارش کے لئے توسل کیا جبکہ اس سال سخت قحط پڑا چنانچہ یہ قصہ صحیح بخاری میں بروایت حضرت انس بن مالک مذکور ہے .
مواہب لدنیہ میں علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی استدعا کی تو فرمایا " اے لوگوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس کو والد کی طرح سمجھتے تھے پس آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرو اور ان کو اللہ تعالی تک وسیلہ بناؤ . اس میں توسل کی تصریح ہے.
پس ان لوگوں کا قول بھی باطل ہوگیا جو زندوں مردوں سب سے توسل کو منع بتاتے ہیں اور ان لوگوں کا بھی جو غیر نبی سے توسل کو ناجائز کہتے ہیں. جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے استدعا کی تھی تو خاص یہ لفظ تھے:
اللھم انا کنا نتوسل بنبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فسقنا "
ترجمہ: اے اللہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ تک وسیلہ بناتے تھے تو تو مینہ برسا دیتا تھا اب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں پس مینہ برسا دے :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فعل حجت ہے کیونکہ حضور نے فرمایا ہے :
ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ
بے شک اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور دل پر حق رکھا ہے -
دیکھیے حضرت عمر خود حضرت عباس سے وسیلہ پکڑ رہے ہیں لہذا وسیلہ شرک کیسے ہو سکتا ہے جب کہ حضرت عمر کے اس فعل پر کسی صحابی نے انکار نہیں کیا .
لہذا مذکورہ نصوص سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے مروی ہیں تم پر واضح ہو گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم توسل آپ کی پیدائش سے قبل اور بحالت حیات بعد وفات ہر وقت واقع ہے اور بعد بعث عرصات قیامت میں بھی آپ سے تو توسل ہوگا-
مواہب میں ہے اللہ تعالی ابن جابر پر رحم فرمائے کہ انہوں نے کہا ہے
بہ قد اجاب الله ادم اذ دعا..
و نجا في بطن السفينه نوح.
و ما ضرت النار الخليل لنوره..
ومن اجلہ نال الفداء ذبيح.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے سبب سے حضرت آدم کی دعا اللہ تعالی نے قبول کی اور حضرت نوح کی کشتی میں نجات ملی اور انہیں کے نور کی وجہ سے حضرت خلیل کو آگ نے ضرر نہ پہنچایا اور حضرت ذبیح نے فدیہ پایا.
اس کے بعد مواہب میں بہت سے برکات کا ذکر ہے جو ان کو توسل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے حاصل ہوئی بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طلب بارش کے لیے آیا اور چند اشعار پڑھے جن میں سے اول یہ تھا:
اتیناک والعذراء یدمی لبانہا
وقد شغلت ام الصبی عن الطفل
ترجمہ: ہم آپ کے پاس اس حالت میں آئے ہیں کہ ماں بچے سے بے پرواہ ہے
اور آخر یہ تھا:
و لیس لنا الا الیک فرارنا
و انی فرار الخلق الا الی الرسل
ترجمہ: سوا آپ کے ہم کس کی طرف جائیں خلق کا مفر رسولوں کی طرف ہی ہے
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع نہیں فرمایا بلکہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب اعرابی نے یہ سارے پڑھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم چادر مبارک کھینچتے ہوئے ممبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ پڑھ کر لوگوں کے لئے دعا فرمائی اور جب تک مینہ برسنے نہ لگا دعا مانگتے ہی رہے -صحیح بخاری میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قحط کی شکایت کی تو آپ نے اللہ تعالی سے دعا کی اور مینہ برسنے لگا آپ نے فرمایا "اگر ابوطالب ہمارے چچا زندہ ہوتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں ان کا قول ہمیں کون سنائے گا" ؟
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ شاید آپ ان کا یہ قول مراد لیتے ہیں:
و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامی عصمۃ للارامل
ترجمہ : گورے رنگ والا جس کے چہرے کے وسیلہ سے مینہ طلب کیا جاتا ہے جو یتیموں کا ماوا اور بیواؤں کا ملجا ہے -
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کھل گیا اور آپ نے شعر پڑھنے سے منع نہیں کیا اور نہ, یستسقی الغمام بوجہہ کہنے سے اور اگر وسیلہ حرام یا شرک ہوتا تو آپ ضرور اس کو منع فرما دیتے اور اس کے پڑھنے کی خواہش ظاہر نہ کرتے اور ابو طالب نے اپنے قصیدہ میں جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے اس وجہ سے لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش پر قحط پڑا تھا تو آپ نے ان کے لیے بارش کی دعا کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کم عمر تھے تو بادل سے خوب مینہ برسا تو ابو طالب نے یہ قصیدہ لکھا-
ہم نے توسل اور وسیلہ کے جواز پر کچھ حد تک دلائل نقل کیے ہیں اس کے علاوہ بہت سی احادیث اس پر شاہد ہیں کہ توسل جائز و درست ہے اب ہم یہاں پر کچھ ائمہ کے فعل سے دلائل ذکر کرتے ہیں-
علامہ ابن حجر اپنی کتاب "الخیرات الحسان فی مناقب الامام آبی حنیفۃ النعمان" کی پچیسویں فصل میں فرماتے ہیں کہ جن دنوں حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے میں تھے حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے توسل کیا کرتے تھے, ان کی قبر شریف کی زیارت کو جاتے تھے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت امام احمد رضی اللہ عنہ انہوں نے حضرت امام شافعی سے توسل کیا یہاں تک کہ ان کے صاحبزادے عبداللہ نے تعجب کیا تو فرمایا امام شافعی گویا آدمیوں کے لئے آفتاب ہیں اور بدن کے واسطے آفیت - جب امام شافعی کو یہ خبر پہنچی کہ اہل مغرب حضرت امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے توسل کرتے ہیں تو انہوں نے منع نہیں کیا- امام ابو الحسن شاذلی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کسی کی کوئی حاجت ہو اور وہ اس کا پورا ہونا چاہتا ہو تو اللہ تعالی کے پاس امام غزالی سے توسل کرے- علامہ ابن حجر اپنی کتاب "الصواعق المحرقۃ لاخوان الضلال و الزندقۃ"میں لکھتے ہیں کہ امام شافعی رضی اللہ عنہ نے اہل بیت نبوی سے توسل کیا:
آل النبی ذریعتی. و ھم الیہ و سیلتی
ارجوا بھم اعطی غدا. بیدی الیمین صحیفتی
ترجمہ: آل نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی کا میرے لیے وسیلہ اور ذریعہ ہیں مجھ کو ان کے سبب سے امید ہے کہ قیامت کو نامہ اعمال میرے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا-
توسل کا تو سلف و خلف میں کسی نے انکار نہیں کیا بلکہ اب یہ منکر پیدا ہوگئے ہیں
سواد اعظم کی اتباع واجب ہے
جو شخص سلف و خلف کے اذکار و ادعیہ و اوراد کو تلاش کرے گا تو توسل کے بارے میں بہت کچھ پائےگا اور میں سمجھتا ہوں وسیلہ کے جواز پر اتنے دلائل حق کے متلاشی کے لئے کافی ہیں اور اگر ان میں غور کیا جائے تو اس پر حق روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا اس کے علاوہ منکرین توسل بہت سے لوگوں پر شبہ ڈالتے ہیں جس سے ان کو اپنے اعتقاد باطل کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں, تو ممکن ہے کہ ان نصوص سے وہ شخص واقف ہو جائے جس کی حفاظت اللہ تعالی چاہتا ہے بس وہ اس بات کی طرف متوجہ ہوں اور ان کے ابطال میں حجت قائم کرے- تو تم جمہور و سواد اعظم کا اتباع کرو ورنہ اللہ و رسول سے جدا اور طریقہ مومنین سے علیحدہ ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ جہنم ہے
واللہ الھادی الی سبیل الرشاد
از قلم.
عاشق القادری مصباحی نیا گاؤں لکھیمپور کھیری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں